یہ نوآبادیاتی دور کا قانون ہے اور عوامی اجتماعات پر پابندی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔5 ستمبر کویہ بل صوبائی اسمبلی میں پنجاب کے وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن نے پیش کیا تھا، جس کے ذریعے کوڈ آف کرمنل پروسیجر (پنجاب ترمیمی) ایکٹ 2024، ضابطہ فوجداری 1898 میں ترمیم کرنا مقصود ہے۔فی الحال، قانون صوبائی حکومت کو زیادہ سے زیادہ 2 دن کے لیے دفعہ 144 نافذ کرنے کی اجازت دیتا ہے، جس میں 7 دن تک توسیع کی جا سکتی ہے، بشرطیکہ انسانی جان، صحت یا حفاظت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔تاہم مجوزہ ترمیم ڈپٹی کمشنر (DC) کو 30 دن تک عوامی اجتماعات پر پابندی نافذ کرنے کا اختیار دے گی جبکہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کا سیکرٹری 90 دن تک پابندی لگا سکتا ہے۔
موجودہ قانون میئر (یا ضلع ناظم) کے دفتر کو دفعہ 144 نافذ کرنے کا اختیار دیتا ہے جو پولیس کی تحریری سفارش کے ذریعے کام کرتا ہے تاہم ترامیم میں یہ اختیار ڈپٹی کمشنر یا ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کو منتقل کرنے کی تجویز ہے جبکہ پولیس کی سفارش کی ضرورت کو ہٹا دیا گیا ہے۔
بل پیش کرنے والے مجتبیٰ شجاع الرحمٰن نے دی نیوز کو بتایا کہ یہ ترامیم صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد متعارف کرائی گئیں، صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’دفعہ 144 کے تحت پابندی کی مدت میں توسیع کی گئی ہے کیونکہ جب بھی پنجاب کے کسی ضلع میں اس طرح کی پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہو تو صوبائی کابینہ سے پیشگی منظوری لینا نہ تو مناسب ہے اور نہ ہی قابل عمل ہے‘۔وزیر خزانہ نے استدلال کیا کہ ’ مجوزہ ترامیم سنگین اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے متعارف کرائی گئی ہیں، جن سے عوامی امن و امان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، ان کا مقصد امن عامہ کی شدید خلاف ورزیوں کو روکنا ہے اور عوامی مفاد میں ایک احتیاطی دائرہ کار اور جلد از جلد حل فراہم کرنا ہے، فی الحال یہ بل پنجاب اسمبلی کی کمیٹی کو بھیجا گیا ہے۔یہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی سزا 1 سے 6 ماہ تک قید ہے۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی 2022 کی ایک رپورٹ، جس کاعنوان’ Freedom of Peaceful Assembly in Pakistan‘ ہے، نے دفعہ 144 کو ایک ’غیر چیک شدہ اتھارٹی‘ کے طور پر حوالہ دیا، جو صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو ’ طویل مدت کے لیے کسی بھی بہانے سے اجتماعات پر پابندی لگانے کا اہل بناتا ہے‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتوں کی طرف سے اس طاقت کا ’بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا گیا ہے‘۔ہیومن رائٹس واچ (HRW) کے سینئر کونسل ایشیا ڈویژن، سروپ اعجاز نے پہلے سے ہی ایک متنازعہ قانون میں مجوزہ تبدیلیوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔سروپ اعجاز نے دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ ترمیم پہلے سے خراب قانون کو مزید خراب کر دے گی، [انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی طرف سے] سی آر پی سی میں دفعہ 144 کو منسوخ کرنے کے مطالبات کیے گئے ہیں کیونکہ یہ پہلے ہی بہت زیادہ وسیع ہے اب، یہ ترمیم انتظامیہ کو 30 یا 90 دن تک توسیعی مدت کے لیے پابندیاں عائد کرنے کی اجازت دے گی۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 16 شہریوں کو پرامن اجتماع کا حق دیتا ہے، پھر بھی ناقدین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں نے ماضی میں دفعہ 144 کا استعمال کسانوں، طلبا اور یہاں تک کہ اساتذہ کے احتجاج کو روکنے کے لیے’ سکیورٹی‘ اور ’ امن و امان‘ کو برقرار رکھنے کی آڑ میں کیا ہے، حال ہی میں، پنجاب حکومت نے بھی اپوزیشن جماعتوں کی سیاسی ریلیوں پر پابندی لگانے کے لیے دفعہ 144کو استعمال کیا ہے۔سروپ اعجاز نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کرنے کا اختیار میئر یا منتخب لوکل گورنمنٹ سے ڈپٹی کمشنر یا ہوم ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری کو منتقل کرنے کی تجویز بھی صوبائی حکومت کی جانب سے اختیارات کو مزید ’ مرکزیت‘ دینے کی کوشش دکھائی دیتی ہے۔وفاقی حکومت نے عجلت میں Peaceful Assembly اور پبلک آرڈر ایکٹ 2024 منظور کیا تھا جو دارالحکومت میں انتظامیہ کو عوامی اجتماعات کو ’ منظم کرنے ‘ اور پابندی لگانے کی اجازت دیتا ہے، اس نے ’ غیر قانونی اجتماع‘ کی سزاؤں کو 6 ماہ سے بڑھا کر 3 سال قید کر دیا