تفصیلات کے مطابق پنجاب میں پہلی مرتبہ صوبائی سائبر کرائم ایجنسی بنانے کے لیے ’پنجاب سائبر کرائم کنٹرول ایکٹ 2024‘ کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جو ابتدائی منظوری کے لیے پنجاب کابینہ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور قانون سازی میں پیش کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق کرائم کنٹرول ایکٹ 2024 کے تحت سائبر ٹیررازم، چائلڈ پورنو گرافی، جنسی استحصال نا قابل ضمانت جرم ہونگے، متاثرہ شخص اورگواہ کو پروٹیکشن فراہم کی جائیگی، ایکٹ کے تحت سائبر کرائم ایجنسی بھی بنے گی جب کہ سائبر کرائم پر 3 ماہ سے 14سال تک قید کی سزا ہوگی۔ ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے علیحدہ عدالتیں ہونگی، اس سے قبل سائبر کرائم کے حوالے سے وفاق نے ’پیکا ‘ ایکٹ بنایا تھا جو اس وقت نافذ العمل ہے۔
انتہائی معتبر ذرائع کا بتانا ہے کہ محکمہ داخلہ کے ماتحت اس سائبر کرائم ایجنسی اور قانون کا مقصد انفارمیشن سسٹم کے حوالے سے تمام ممنوعہ اقدامات سے بچاؤ ہے اور ایکٹ کے ذریعے صوبائی حکومت انفارمیشن سسٹم سے متعلقہ جرائم کی تحقیقات جب کہ پراسیکیوشن ٹرائل کرسکے گی۔ذرائع کے مطابق یہ قانون کسی ڈیٹا یا انفارمیشن سسٹم تک غیر قانونی رسائی، بچوں کی جنسی حراسگی کے متعلق مواد، ڈارک ویب، ڈیٹا کو نقصان پہنچانے، الیکٹرانک اور فنانشل فراڈ، جنسی حوالے سے واضع طرز عمل، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، غیر قانونی انٹرسیپشن، غیر مطلوبہ معلومات تک رسائی، غیر قانونی طور پر ڈیٹا یا اس کی ٹرانسمیشن کی کاپی کرنے والوں پر لاگو ہوگا۔اس کے علاوہ سائبر ٹیررازم، نفرت انگیز تقاریر، دہشتگردی کے لیے ریکروٹمنٹ، فنڈنگ اور پلاننگ، الیکٹرانک جعل سازی اور فراڈ، غیر قانونی طور پر موبائل سم کا اجرا، چائلڈ پورنو گرافی، بچوں کی تجارت اور ان کا جنسی استحصال، اغوا کے لیے معلومات کا استعمال، بچوں کی غیر قانونی اسمگلنگ، سائبر غنڈہ گردی، سائبر اسپیمنگ اور جعلسازی کرنے والوں پر بھی پنجاب سائبر کرائم ایکٹ 2024 لاگو ہوگا