اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شزہ فاطمہ نے کہا کہ فائیو جی اور فور جی کی اسپیکٹرم بہتر کی جائے گی جس کے بعد انٹرنیٹ سروسز میں بہتری آئے گی، جب تمام چیزیں ٹھیک بھی ہوتی ہیں پھر بھی انٹرنیٹ کی اسپیڈ پاکستان میں بہتر نہیں ہوتی، اس وجہ سے فری لانسر اور آئی ٹی انڈسٹری متاثر ہوتی ہے۔وزیر مملکت نے کہا کہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ اس طرح نہیں جس طرح ہونی چاہیے، سیٹلائٹ انٹرنیٹ پروائیڈرز سے بات ایڈوانس اسٹیج میں ہے، جب تک اسمارٹ ڈیوائسز دستیاب نہ ہوں انٹرنیٹ بے معنی ہوتا ہے۔شزہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ جون 2024 میں 95 فیصد لوکل ڈیمانڈ پرلوکل مینوفیکچر اسمارٹ فونز بنائے گئے، 2024 کے پہلے 9 ماہ میں 2 جی سمیت 87 لاکھ (8.7 ملین) اسمارٹ فونز پاکستان میں بنائے گئے، کوشش ہے کہ ایسی پالیسی بنائیں کہ کچھ ہی عرصے میں اسمارٹ فونز ایکسپورٹ ہونا شروع ہوجائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردوں کے ہاتھوں میں ٹیکنالوجی ہمارے لیے ایک الگ چیلنج ہے، دنیا میں ہر جگہ ریگولیٹری چیلنجز ہیں یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں ہے،بچوں کی سائبر سکیورٹی اور پروٹیکشن بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ہماری فری لانسرز سےبھی بات ہوتی ہے،کوشش ہوتی ہے ان کا ہر چیلنج حل کرنے کی کوشش کریں، ہم نے مختلف ادوار میں طلبہ کو لیپ ٹاپس دیے، آج تک 11 لاکھ سے زائد لیپ ٹاپس تقسیم کیے جاچکے ہیں