پاکستان میں آنلائن مواد کو بلاک کرنے کیلئے ویب مانیٹرنگ سسٹم کا استعمال جاری

قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) پاکستان میں آن لائن ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے متنازع ویب مانیٹرنگ سسٹم (WMS) کا استعمال کر رہی ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پر انتظامی کنٹرول رکھنے والےکابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر سے پی ٹی اے کے ملک میں ویب ایپلی کیشنزکو بلاک کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں سوال کیا گیا۔
26 اگست کو بھیجے گئے ایک تحریری جواب میں، وزیر نے وضاحت کی کہ پی ٹی اے کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کے سیکشن 37 کے تحت ”غیر قانونی مواد“ کو بلاک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔پی ٹی اے ایپل اور گوگل جیسے ہوسٹنگ اداروں کو براہ راست ایپلی کیشنز کو ہٹانے اور بلاک کرنے کی شکایات اور درخواستیں بھی کرتا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ”internet content management“ کے لئے WMS کو لگایا ہے۔وزیر نے اعتراف کیا کہ پی ٹی اے پاکستان میں ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے لیے WMS کا استعمال کر رہا ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ ”پی ٹی اے نے اب تک کل 469 موبائل ایپلی کیشنز (435 اینڈرائیڈ اور 34 ایپل) کو بلاک کیا ہے جن میں مختلف کیٹیگریز بشمول اسلام کی شان کے خلاف ایپلی کیشنز، نامناسب/غیر اخلاقی مواد اور دھوکہ دہی پر مبنی سرگرمیاں شامل ہیں۔“
سوشل میڈیا سائٹX (جسے پہلے ٹوئٹر کہا جاتا تھا) کو پاکستان میں 17 فروری سے باضابطہ طور پر بلاک کر دیا گیا ہے اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ویب سائٹ انتخابات سے پہلے ہی ناقابل رسائی ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ 15 اگست کو وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ”ملک میں سائبر سیکیورٹی حملوں سے نمٹنے کے لئے WMS ضروری ہے۔“ تاہم، قومی اسمبلی میں کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیرکے جواب میں مواد کو بلاک کرتے وقت سائبر سیکیورٹی خدشات کا کوئی ذکر نہیں کیاگیا۔
کوڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق، متنازعہ ویب مانیٹرنگ سسٹم (جسے ویب مینجمنٹ سسٹم بھی کہا جاتا ہے) پاکستان نے 2018 میں کینیڈا میں قائم کمپنی سینڈ وائن (Sandvine)سے 18.5ملین ڈالر میں حاصل کیا تھا۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ترجمان نے اس سال کے شروع میں نجی ٹی وی کو بتایا تھا کہ دسمبر 2023 میں ویب مینجمنٹ سسٹم کو مزید اپ گریڈ کیا گیا اور انٹرنیٹ سب میرین کیبلز SMW 3، 4 اور 5 کے لئے لینڈنگ اسٹیشنز پر ٹیسٹ کیا گیا۔ PTA کا دعویٰ ہے کہ اس ”اپ گریڈ“ کی وجہ سے انتخابات سے قبل قومی سطح پر انٹرنیٹ کی بندش اور سست روی ہوئی۔روزنامہ ڈان میں صحافی اور ڈیجیٹل حقوقی کی کارکن رمشا جہانگیر نے لکھا کہ WMS ،وی پی این ٹریفک کی شناخت اور بلاک کرنے کے لئے ڈیپ پیکٹ انسپکشن ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے اور یہ پاکستان آنے اور جانے والی تمام انٹرنیٹ ٹریفک کی حکومتی نگرانی کو بھی قابل بناتا ہے۔تاہم، کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے قومی اسمبلی میں اعتراف کیا کہ گیٹ وے کی سطح پر مواد کو بلاک کرنے کی کوشش کے باوجود پاکستان میں VPNs کے ذریعے مواد تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وی پی این صارفین جو ”اپنے نجی ٹریفک کے ذریعے گیٹ وے کو بائی پاس کرتے ہیں،وہ ممنوعہ مواد کے حوالے سے ریاستی پالیسی کو بھی نظرانداز کر رہے ہیں۔“واضح رہے کہ سرکاری افسران بشمول وزراء اور خود وزیراعظم پاکستان میں سرکاری پابندی کے باوجود X (سابقہ ٹوئٹر) استعمال کر رہے ہیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ VPNs کے ذریعے پلیٹ فارم تک رسائی حاصل کر رہے ہیں۔وزیر نے اپنے تحریری جواب میں لکھا کہ ”پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے لئے VPN کے’ غلط استعمال ‘کو کنٹرول کئے بغیر PECA کی ذمہ داریوں کی مؤثر طریقے سے تعمیل کرنا بہت مشکل ہے۔” وزیر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پی ٹی اے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور P@SHA کے ساتھ ملک میں IPs اور VPNs کو ”وائٹ لسٹ“ کرنے کے لئے کام کر رہا ہے، جس نے اب تک 20,437وی پی این رجسٹرڈ کئے ہیں۔اس کے علاوہ، پی ٹی اے نے سرکاری تنظیموں کے لیے شکایت درج کرنے اور مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کی درخواست کرنے کے لیے ایک ای پورٹل(e-portal) شروع کیا ہے۔ آج تک، وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت 47 اسٹیک ہولڈرز ای پورٹل استعمال کر رہے ہیں۔رمشا جہانگیر نے دی نیوز کو بتایا کہ قانون سازوں کو حکومت اور پی ٹی اے کے انکشافات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ویب مانیٹرنگ سسٹم VPNs کو وائٹ لسٹ کرنے اور آن لائن مواد کو بلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ”انہوں [PTA] نے گیٹ وے کی سطح پر بلاکس لگانے کا بھی اعتراف کیا ہے، سائبر سیکیوریٹی یا کیبل فالٹ کور(cable fault cover) اب برقرار نہیں ہے۔“رمشا جہانگیر نے مزید کہا کہ WMS کے ذریعے پاکستان میں انٹرنیٹ فلٹرنگ کی مثال کو دیکھتے ہوئےحکام کے لئے اپنے منصوبوں کے بارے میں شفاف ہونا اب اور بھی اہم ہے

Leave a Reply