قتل کے جرم میں غلط سزا، عدالت کا انتظامیہ کو متاثرہ شخص کو 50 ملین ڈالر ادا کرنے کا حکم

غیر ملکی میڈیا کے مطابق 34 سالہ مارسل براؤن کو سال 2008 میں شکاگو میں ہونے والے ایک قتل کے الزام میں پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے جھوٹا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا۔پولیس نے مارسل براؤن کو اعتراف نہ کرنے کی صورت میں لمبی سزا ہونے کا کہہ کر خوف زدہ کیا اور جھوٹے اعتراف جرم پر مجبور کیا جس کے  بعد عدالت نے براؤن کو 35 سال کی سزا سنائی تھی۔رپورٹ کے مطابق شہری نے 10 سال جیل میں گزارے جس کے بعد سال 2018 میں عدالت نے اسے قتل کے الزام میں بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کردیا گیا تھا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق مارسل براؤن نے کچھ عرصے قبل پولیس کی جانب سے جھوٹے اعتراف جرم پر مجبور کرنے اور اس کے نتیجے میں سزا کے طور پر 10 سال تک جیل میں رہنے پر پولیس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔ 
عدالت نے 2 ہفتے کیس سماعت کے بعد اپنا فیصلہ سنایا اور پولیس اور انتظامیہ کی وجہ سے مارسل براؤن کو غلط سزا ہونے اور ان کے ساتھ روا ہونے والے سلوک پر انہیں 50 ملین ڈالر (تقریباً 14 ارب پاکستانی روپے) معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا جو امریکا کی تاریخ میں دیا جانے والا سب سے بڑا معاوضہ ہے۔ مارسل براؤن کا کیس لڑنے والے لاء فرم لووی اینڈ لووی کے مطابق پولیس نے مارسل براؤن کو ایک کمرے میں 30 گھنٹے تک بند کیے رکھا اور سونے نہیں دیا، اسے کھانا بھی نہیں دیا گیا اور نا ہی بار بار درخواست کرنے کے باوجود اسے ایک فون کال کرنے دی گئی۔ 
لووی اینڈ لووی کے مطابق پولیس نے مارسل کو جھوٹا اعتراف نہ کرنے کی صورت میں طویل قید سے ڈرایا، جب وہ مدد کے لیے گئے تو ان کے اہلخانہ کو بھی ان سے دور کردیا۔اس موقع پر مارسل براؤن کا کہنا تھا کہ یہ پہلی دفع ہے مجھے اپنی کہانی بتانے کا موقع ملا ہے، یہ ناقابل یقین تھا اور میں بس اپنے وکیل کا ہاتھ تھامے رو رہا تھا، میں شکر گزار ہوں کے بل آخر انصاف ہوا

Leave a Reply