اسرائیلی میڈیا نے قطر کے لندن سے شائع ہونے والے العربی الجدید نیوز آؤٹ لیٹ کی رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ اتوار کو حماس کا ایک وفد قاہرہ میں موجود تھا اور اس نے ایسے یرغمالیوں کی فہرست فراہم کی جو عمر رسیدہ یا طبی مسائل کے شکار ہیں اور جنہیں تجویز کردہ جنگ بندی کے ابتدائی مراحل میں رہا کیا جائے گا۔
خبر کے مطابق حماس وفد نے بیمار اور عمر رسیدہ اسرائیلیوں کے علاوہ چار امریکی شہریت رکھنے والے یرغمالیوں کے نام بھی دیے جو اس زمرے میں نہیں آتے۔
حماس کی جانب سے اسرائیل کی قید میں موجود فلسطینی قیدیوں کی فہرست بھی مصری حکام کو سونپ دی گئی ہے جن کی رہائی وہ یرغمالیوں کے تبادلے کے بدلے چاہتی ہے۔رپورٹ کے مطابق اسرائیل اس فہرست کا جائزہ لے رہا ہے، اور اسی سلسلے میں ایک اسرائیلی مذاکراتی وفد قاہرہ پہنچنے گا۔العربی الجدید کے ذریعے کے مطابق امریکا، مصر، قطر اور ترکیہ ثالثی میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
مصر کی پیش کردہ موجودہ تجویز کے مطابق جنگ بندی کے دوران اسرائیل غزہ سے مرحلہ وار انخلا کرے گا جو دو ماہ تک جاری رہے گی، اس دوران فریقین لڑائی کے مستقل خاتمے پر کام کریں گے۔ حماس نے بھی 60 دن کے اس عبوری دورانیے پر اتفاق کیا ہے، جس کے دوران غزہ میں اضافی خوراک، ادویات اور ایندھن فراہم کیے جا سکیں گے۔ماضی میں مذاکرات کے رکنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ حماس اسرائیلی فوج کے غزہ سے مکمل انخلا اور جنگ کے مستقل خاتمے کا مطالبہ کر رہی تھی، جبکہ اسرائیل صرف عارضی جنگ بندی اور غزہ میں اپنی فوج کی موجودگی کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مصری حکام کے درمیان امید ہے کہ جنوری 20 کو ٹرمپ کی ڈیڈ لائن سے پہلے ایک معاہدہ ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ ایک سال سے زائد عرصے کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان کئی مذاکراتی ادوار ناکام ہو چکے ہیں اور نومبر 2023 کے آخر میں ہونے والے ایک معاہدے کا کوئی تسلسل نہیں بن سکا، جس کے تحت ایک ہفتے کی جنگ بندی میں 105 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔اسرائیل کا ماننا ہے کہ 7 اکتوبر کو اغوا کیے گئے 251 یرغمالیوں میں سے 96 اب بھی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے کم از کم 34 کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ پچھلے 14 مہینوں میں اسرائیلی افواج نے 8 یرغمالیوں کو بازیاب کرایا اور 38 کی لاشیں برآمد کیں