تین روز کا جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد ایف آئی اے نے رؤف حسن کو ڈیوٹی جج مرید عباس کی عدالت میں پیش کر دیا پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو بھی جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا، سیدہ عروبہ کو گزشتہ روز ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔
خیال رہے کہ رؤف حسن اور دیگر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمہ ہے۔ایف آئی اے نے رؤف حسن سمیت دیگر ملزمان کے 8 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کر دی۔ایف آئی اے پراسکیوٹر کا کہنا تھا ریکارڈ میں ریاست مخالف ویڈیوز کے ٹرانسکرپٹ لگائے گئے ہیں، مزید ریکوری کے لیے مزید 8 دن کا جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔تفتیشی افسر کا کہنا تھا پیکا ایکٹ کے تحت 30 دن کا ریمانڈ حاصل کر سکتے ہیں، جب تک ملزمان کی کسٹڈی نہیں ہو گی تو ہم انکوائری کیسے کریں گے۔جج مزید عباس نے استفسار کیا رؤف حسن کا انڈیا سے ویزا یا ٹکٹ بھی آیا ہے؟ جس پر ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے کہا جی رؤف حسن کا بھارت سے سفری ٹکٹ آیا ہے۔فاضل جج نے پی ٹی آئی کے گرفتار رہنما سے پوچھا رؤف حسن صاحب، آپ کبھی بھارت گئے ہیں؟ راہول نامی بندے کے ساتھ آپ کی چیٹ ہے، اس کا اقرار کرتے ہیں؟رؤف حسن کا کہنا تھا جی راہول یوکے میں رہتا ہے اس نے گیسٹ اسپیکر کے طور پر مجھے بحرین بلایا تھا، دسمبر 2023 میں بحرین بلایا تھا، میں کنگ کالج لندن کا سینئر فیلو ہوں۔پی ٹی آئی کے وکیل علی بخاری ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کل ایک خاتون کو گرفتار کیا گیا، جس پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عروبہ پی ٹی آئی کے ایکس اکاؤنٹ کو ہینڈل کرتی ہیں، عروبہ نے ابھی تک اکاؤنٹس کو سرنڈر نہیں کیا۔علی بخاری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا خاتون ایک ملازم کے طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہینڈل کرتی ہے، خاتون کو ہاسٹل سے گرفتار کیا جو قانون کے خلاف ہے، ایف آئی اے سیدہ عروبہ کو نوٹس بھی کر سکتی تھی۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ پیکا کی نئی ترامیم کے تحت گرفتاری کی جاسکتی ہے، جس پر وکیل علی بخاری کا کہنا تھا سارا کیس صرف موبائل فونز پر آکر رک جاتا ہے، سب موبائل فون ان کے پاس ہیں، جب موبائل فون ایف آئی اے کے پاس ہیں تو ملزمان کو چھوڑ دیا جائے، اگر کچھ سامنےآتا ہے تو عدالتیں موجود ہیں۔وکیل علی بخاری کا کہنا تھا اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا ہوا ہےکہ موبائل فون اور لیپ ٹاپ واپس کر دیے جائیں، ایف آئی آر کا ٹائم اور تاریخ سمجھ سے باہر ہے، عروبہ کا نام ایف آئی آر میں شامل ہی نہیں، پولیس نے گرفتار کیا اور کہا کہ ایف آئی اے کی معاونت کی، پولیس نے ایف آئی اے کے قوانین کے ساتھ پولیس رولز کی بھی خلاف ورزی کی، ایف آئی آر میں جو تعلق بنایا گیا اس کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔